عوام مقامی اشیاء جبکہ اشرافیہ درآمد شدہ چیزیں استعمال کرتے ہیں۔
معیشت تباہ ہونے سے قبل سماج اور سیاست تباہ ہوتی ہے۔ میاں زاہد حسین
(27 فروری 2023)
نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ اوپر سے نیچے آتا ہے مگر پاکستان میں سرمائے کا رخ نیچے سے اوپر کی جانب ہے کیونکہ پاکستان کی ٹیکس آمدن کا 80 فیصد بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہو رہا ہے۔ مہنگائی،غربت اور بے چینی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں ٹیکس کا پوٹینشل گیارہ ہزارارب سالانہ ہے جبکہ کولیکشن سات ہزار ارب ہے۔ پاکستان میں کچھ لوگوں کے پاس بہت زیادہ دولت ہے جبکہ بہت سے لوگوں کے پاس کھانے کو نہیں ہے اور انھیں صحت، پانی، بجلی، بچوں کی تعلیم یا روٹی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جو کہ غیر منصفانہ ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اشرافیہ عام طورپردرآمد شدہ اشیائے تعیش استعمال کرتی ہے جس سے ملک پر بوجھ بڑھتا ہے جبکہ متوسط اورغریب طبقہ مقامی طور پر تیار شدہ اشیاء کو ترجیح دیتا ہے جس سے معیشت ترقی کرتی ہے اور روزگار بڑھتا ہے۔ جن معاشروں میں اشرافیہ دولت چوس رہی ہو وہاں ترقی کے لئے عوام انفرادی کوشش اور قابلیت کے بجائے دیگر راستے اختیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے ملک تباہ ہونے لگتا ہے۔ ملکی معیشت کی تباہی سے قبل اخلاقی اقداراورسیاست کا جنازہ نکل جاتا ہے جبکہ جن ممالک میں اشرافیہ کو انکی حد میں رکھا جاتا ہے وہاں کی عوام تعلیم اور محنت کے ذریعے ترقی کرتی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان میں زمینی اصلاحات کا حشر بھی دیگر شعبوں میں کی جانے والی نام نہاد اصلاحات سے مختلف نہیں۔ دولت پیدا کرنے والے جس ماڈل کی پاکستان میں پیروی کی جاتی ہے وہ ناکامیوں کا مجموعہ ہے جسے کئی دہائیوں سے جاری غلط پالیسیوں نے مزید برباد کر دیا ہے۔ تعلیم مساوات کو یقینی بنانے کا بہت بہتر ذریعہ ہے مگرہمارے پالیسی سازوں کی اس پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مقامی سرکاری سکولوں میں سرمایہ کاری اورعالمی سطح کی بہترین تعلیمی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اشرافیہ اور عام آدمی کے بچوں کو ایک جیسے اسکولوں میں تعلیم دی جائے۔ طبقاتی تعلیم کا نظام ختم کیا جائے تو ملک و قوم کی قسمت بدل جائے گی۔ اگر پاکستان کا اقتصادی ماڈل تبدیل نہ کیا گیا اور اربوں روپے کے نقصانات کے دروازے بند نہ کئے گئے توعوام کے لیے روزگار کے مواقع روز بروز کم ہوتے جائیں گے جس سے بے چینی بڑھتی جائے گی اور سیاسی طالع آزما اس کا بھرپورفائدہ اٹھائیں گے۔ جس کا نتیجہ بدامنی کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔
