فوڈ سیکورٹی کی نازک صورتحال جان بوجھ کر مزید خراب کی جا رہی ہے۔
سیاست کے لئے کروڑوں کاشتکاروں کو مفت بیج سے محروم کرنا ظلم ہے۔ میاں زاہد حسین
نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ اس سال پاکستان کو 2.5 ملین ٹن گندم کی قلت کا سامنا ہے اس کے باوجود گندم جیسے حساس معاملے پر مرکز اور صوبوں کے مابین سیاسی رسہ کشی افسوسناک ہے جو ملک میں فوڈ سیکورٹی کی نازک صورتحال کو جان بوجھ کر مزید خراب کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے فیصلے نہ کئے جائیں جس سے ملک میں انارکی اور عدم استحکام بڑھے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اشیائے خوردو نوش میں سب سے زیادہ سیاست گندم پر کی جاتی ہے مگر پاکستان میں ارباب اختیار ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے سیلاب سے متاثرہ کاشتکاروں کی مدد اورملک میں فوڈ سیکورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے بیج پر سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سکیم کے تحت کسانوں کو پچاس فیصد بیج حکومت نے فراہم کرنے تھے جس سے کاشتکاروں پر مالی بوجھ میں خاطر خواہ کمی آ جاتی ہے۔ سندھ اور بلوچستان نے فوری طور پر اس سکیم کی حمایت کر دی مگر پنجاب اور خیبر پختونخواہ نے اس سکیم کی مخالفت کر دی اور کہا کہ انھیں اس مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ ان دونوں صوبوں نے سیاست کے لئے کروڑوں کاشتکاروں کو مفت بیچ سے محروم کر دیا اور وفاقی حکومت پر بے بنیاد الزامات بھی عائد کرنا شروع کر دئیے۔ ایک طرف یہ صوبے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ہرممکن طریقے سے قرضوں اور امداد کے لئے کوشاں ہیں جبکہ دوسری طرف مفت بیج وصول کرنے سے انکار کر رہے ہیں جو حیران کن ہے۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ پنجاب گندم درآمد کرنے کے لئے کوششیں کر رہا ہے مگر وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلےمیں منافع خوری نہیں ہونے دینگے۔ انکا کہنا ہے کہ گندم کے درآمدکنندگان کے منافع کے لئے زرمبادلہ کے ذخائر کی قربانی نہیں دی جا سکتی اور اگر ضرورت پڑی تو وفاقی حکومت خود سستے نرخ پر گندم درآمد کر لیگی۔