سولر پینل کی درآمد سستی، ملک میں سولر پینل بنانا مہنگا ہو گیا ہے۔
مناسب پالیسی سے پورا ملک چھ ماہ میں سولر پر منتقل ہو سکتا ہے۔ میاں زاہد حسین
نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت کی سولر پالیسی درآمدات کو مقامی مینوفیکچرنگ پر ترجیح دے رہی ہے جس سے نہ صرف زرمبادلہ ضائع ہو رہا ہے بلکہ ملک میں اس سیکٹر کا مستقبل بھی تاریک ہو رہا ہے۔ مکمل سولر پینلز کی درآمد پر کوئی ٹیکس نہیں ہے جبکہ مقامی طور پر یہ پینل تیار کرنے والوں کو سترہ فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں حکومت کی جانب سے شمسی توانائی کی مدد سے دس ہزار میگاواٹ بجلی تیار کرنے کے منصوبے کا مستقبل مخدوش ہو گیا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مقامی مینوفیکچرنگ کو درآمدات پر ترجیح دینے کے اعلانات کرتی رہتی ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ اس وقت اگر چین کے ایک تاجر سے سولر پینل کے مختلف پرزے درآمد کیے جائیں تو مختلف ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگے پڑتے ہیں جبکہ مکمل طور پر تیار شدہ سولر پینل سستا پڑتا ہے۔ اس سلسلہ میں متعلقہ پالیسیوں کو بھی اکثر بدل دیا جاتا ہے جس سے سرمایہ کاری کے امکانات کو زک پہنچتی ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ کم از کم دس سال کے لئے ایسی پالیسی کا اعلان کرے جس میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے تو یہ سیکٹر ترقی کر سکتا ہے جس سے درآمد شدہ مہنگی گیس، تیل اور کوئلے کے بجلی گھروں پر دباؤ کم ہو گا اور ایندھن کا امپورٹ بل بھی کم ہو جائے گا۔ پچھلے مالی سال میں 20 ارب ڈالر کی توانائی کی درآمدات کی گئیں جو پاکستانی کرنسی میں 4500 ارب روپے بنتے ہیں اگر یہ خطیر رقم عوام کو بلا سود آسان قرض کی شکل میں فراہم کی جائے تو پورا ملک 6 ماہ میں سولر پر منتقل ہو سکتا ہے جس سے پاکستان کا توانائی امپورٹ بل 10 ارب ڈالر رہ جائے گا اورغریب عوام کو مفت بجلی مل سکے گی۔ مگراس پر عمل درآمد اسی وقت ممکن ہے جب پالیسیوں میں مثبت تبد یلی کی جائے تاکہ ملک میں سولر پینل اور دیگر متعلقہ سازوسامان بڑے پیمانے پر امپورٹ اور تیار کرنے کا سلسلہ شروع کیا جا سکے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ دو ماہ سے اسٹیٹ بینک نے چیپٹر 84 اور چیپٹر 85 کے تحت درآمدات کیلئے زرمبادلہ کی فراہمی روکی ہوئی ہے جس سے سولر، صنعتی مشینری اوراسپیئرپارٹس کی بندرگاہ سے کلیئرنس اور درآمدات رک گئی ہیں جبکہ ڈیمرج اور ڈیٹینشن چارجز سامان کی کل مالیت سے بھی بڑھ چکے ہیں اور درآمد کنندگان مارے مارے پھر رہے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ چونکہ پاکستان میں لیبر سستی ہے اس لئے پاکستان سولر پینل وغیرہ برآمد کر کے قیمتی زرمبادلہ بھی کما سکتا ہے جس کے لئے حکومت کو ترغیبا ت کا اعلان کرنا ہو گا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ 2050 تک دنیا کی ضرورت کی پچیس فیصد بجلی سورج سے حاصل کی جا رہی ہوگی۔ اس وقت دنیا میں سولر پاور کی کل پیداوار میں چین کا حصہ ستر فیصد ہے۔ دیگر قابل زکر ممالک میں امریکہ، جرمنی اور جاپان شامل ہیں جبکہ بھارت میں توانائی کے اس سستے زریعے کو اپنانے میں زبردست سرگرمی دکھا رہا ہے جبکہ یہاں ابھی تک مناسب پالیسی ہی نہیں بنائی جا سکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ملک میں آمد کے بعد ڈالر کی قیمت مسلسل کم ہو رہی ہے جس سے ان کے عزم اور صلاحیت کا اظہار ہو رہا ہے اور پاکستان کے قرضوں میں دو ہزار ارب روپے کی کمی واقع ہو چکی ہے۔ مگراس کمی کے اثرات عوام تک منتقل نہیں ہو رہے ہیں جس کے لئے اقدامات کئے جائیں zahi۔