عوام کوریلیف دینے کے لئے پاک بھارت سرحد پردرجنوں مارکیٹیں بنائی جائیں۔
بھارت میں جوسبزی سترروپے کلوہے وہ پاکستان میں 500 روپے کلوہے۔ میاں زاہد حسین
نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ بھارت سے فوری طورپرزرعی اشیاء کی درآمد کی اجازت نہیں دی گئی توعوام بھوکی مرجائے گی۔ منافع خورایک بارپھرسرگرم ہوکرعوام کولوٹ رہے ہیں جبکہ ملک میں انھیں کنٹرول کرنے کا کوئی فعال نظام موجود ہی نہیں ہے۔ سیلاب کے باعث کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں جس سے ملک بھرمیں اشیائے خوردونوش کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ مختلف شہروں میں ٹماٹر اورپیاز کی قیمت پانچ سوروپے کلوتک پہنچا دی گئی ہے اوران میں مذید اضافہ متوقع ہے۔ بھارت سے امپورٹ کی صورت میں یہ اشیاء 48 گھنٹوں میں پاکستان پہنچ سکتی ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے مسئلہ پرپاکستان نے تین سال قبل بھارت سے تجارت بند کی تھی جس سے بھارت پرتوکوئی اثرنہیں پڑامگرپاکستان میں منافع خوروں کی عید ہوگئی جس سے عوام کوریکارڈ مہنگائی کا تحفہ ملا جس نے انکی کمرتوڑ ڈالی۔ منافع خوروں کی لوٹ مارکا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے جسے لگام دینے کے لئے بھارت سے اشیائے خوردونوش منگوانا ضروری ہوگیا ہے۔ واہگہ کے راستے درآمدات ناکافی ہونگی اورانھیں ملک کے مختلف حصوں تک پہنچانا مہنگا پڑے گا اس لئے پاکستان اوربھارت کی سرحد جس کی لمبائی تین ہزارکلومیٹرسے زیادہ ہے پردرجنوں بارڈرمارکیٹیں بنائی جائیں جوعوام کوریلیف دینے کے لئے ضروری ہے کیونکہ سیلاب نے لاکھوں ایکڑپرکھڑی فصلوں کا خاتمہ کردیا ہے جبکہ ایران اور افغانستان سے آنے والی سبزی اورپھل وغیرہ پاکستان کی ضروریات کے لئے ناکافی ہیں۔ اگرحکومت نے اس اہم فیصلے میں تاخیرکی توامپورٹربھارتی زرعی اشیاء کودبئی کے راستے منگوانا شروع کردینگے جس سے انکی قیمت میں اضافہ ہوجائے گا جسے عوام بھگتے گی۔ اس وقت واہگہ بارڈرکے پاس پاکستانی کرنسی میں پیاز 69 روپے، ٹماٹر83 روپے اورآلو69 روپے فی کلودستیاب ہے مگرپاکستان میں ان اشیاء کی قیمت سینکڑوں روپے فی کلو ہے جوعوام پرظلم کے مترادف ہے۔