اورٹیکسٹائل ملزبند ہوگئی ہیں۔
کپاس درآمد کرنا ہوگی، امپورٹ بل بڑھے گا۔ میاں زاہد حسین
نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ بارش اورسیلاب کی تباہ کاریوں کے سبب کپاس کی قیمت ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پرپہنچ گئی ہے جوملک کے سب سے بڑے صنعتی وبرآمدی شعبہ جس سے کروڑوں لوگوں کا روزگاروابستہ ہے کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کپاس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے کئی ٹیکسٹائل ملزاستعداد سے کم چلائی جا رہی ہیں جبکہ بہت سی بند ہوگئی ہیں جس سے روزگار، کاروبار، برآمدات اورمحاصل متاثرہورہے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکسٹائل ملزکورواں رکھنے کے لئے بھاری مقدارمیں کپاس درآمد کرنا ہوگی جس پربھاری زرمبادلہ صرف ہوگا اورامپورٹ بل بڑھے گا جبکہ پچھلے مالی سال میں بھی دو ارب ڈالرکی کپاس درآمد کی گئی تھی۔ مقامی سطح پر کپاس کی پیداواربڑھانے کے لئے ایک بڑامنصوبہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ کپاس کاشت کرنے والا کوئی علاقہ بھی بارش اورسیلاب کی تباہ کاری سے محفوظ نہیں رہا ہے۔ جن مقامات پرفصلیں مکمل تباہی سے بچ گئی ہیں وہاں انکا معیاربری طرح متاثرہوا ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے گزشتہ آٹھ روز میں کپاس کی قیمت میں دوہزارروپے فی گانٹھ کا اضافہ ہوچکا ہے اوریہ سلسلہ جاری رہنے کا قوی امکان ہے۔ ادھربہت سی جننگ فیکٹریاں زیرآب آچکی ہیں، کئی کے گودام اوردیواریں گرگئی ہیں جس سے صورتحال پرمنفی اثرپڑرہا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ بارشوں اورسیلاب کی وجہ سے دیہی معیشت تباہ ہوگئی ہے۔ دیہی طلب میں زبردست کمی متوقع ہے جس کااثرٹریکٹر، ٹرک، گاڑیاں، موٹرسائیکل اورکھاد بنانے والی کمپنیوں سمیت درجنوں شعبوں پرپڑے گا جب کہ اجناس اور سبزیوں کی شدید قلت پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔ میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے دباؤ پر فرٹیلائیزر، ڈی اے پی، فاسفورس وغیرہ پرسترہ فیصد سیلزٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ غلط ہے جس سے تباہ حال کاشتکاروں کومذید دباؤ کا سامنا کرنا ہوگا جس سے زرعی پیداوارمذید گرجائے گی۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ اس نازک وقت میں بھی بعض سیاستدان متحد ہونے کے بجائے اپنے مزموم مفادات کے لئے ایک دوسریکی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں اوراس سیاسی افراتفری کی وجہ سے سیلاب زدگان نظراندازہورہے ہیں۔