گزشتہ مالی سال 17 ارب ڈالرکی زرعی اشیاء درآمد کی گئیں۔
آٹھ سالوں میں آبادی بڑھی مگرگندم کی پیداوارنہیں بڑھی۔ میاں زاہد حسین
نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملک کے سب سے اہم شعبہ کی زبوں حالی کا نتیجہ معیشت کی بدحالی کی صورت میں نکل رہا ہے۔ دنیا کا بہترین نہری نظام اورزرخیززمین کے باوجود زرعی درآمدات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں دس ارب ڈالر کے فوڈ آئٹمز، ایک ارب ڈالرکی چائے، دو ارب ڈالرکی کپاس اور چار ارب ڈالر کا پام آئل درآمد کیا گیا جس کی مالیت پاکستانی کرنسی میں 3,400 ارب روپے بنتی ہے یہی رقم اگر پاکستان کی زراعت میں اضافہ کے لئے انویسٹ کی جاتی تو پاکستان زراعت میں نہ صرف مکمل طور پر خود کفیل ہو جاتا بلکہ زرعی اشیا کا برآمد کنندہ بھی بن جاتا۔ پاکستان کی تمام سابقہ زرعی پالیسیوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک شعبہ کوتوجہ دی گئی تودوسرے کونظراندازکرکے اسکے زوال کی راہ ہموارکی گئی۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی تقریباً ایک تہائی آبادی زراعت سے وابستہ ہے، جی ڈی پی میں اس کا حصہ بائیس فیصد سے زیادہ ہے اورسترفیصد برآمدات کا تعلق بھی اسی شعبہ سے ہے مگراسے کبھی وہ توجہ نہیں دی گئی جواسکا حق ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں زرعی شعبہ کی حالت کچھ بہترہوئی تھی جس کے بعد اسکا زوال شروع ہوگیا اورگزشتہ سالوں سے زرعی شعبہ اطمینان بخش کارکردگی نہیں دکھا سکا ہے جس کی وجوہات میں مافیا، کارپوریٹ فارمنگ کا عدم فرو غ، منصوبہ بندی اورریسرچ کا فقدان، سرمایہ کاری نہ ہونا، پانی کی کمی، ناقص مداخل اور ان کی قیمتوں میں زبردست اضافہ اورزمین کی حالت میں خرابی شامل ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ چونتیس سال قبل ملک کے ایک مایہ نازماہرنے زراعت کے مسائل کے حل اوراسکی ترقی کے لئے ایک رپورٹ تیارکی جسے ابھی تک کسی نے سنجیدگی سے پڑھنے اوراس میں موجود سفارشات پرعمل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اورزرعی شعبہ کسی نگرانی کے بغیرہی چلتا رہا۔ اس دوران بیجوں کی نئی اقسام پرکچھ توجہ دی گئی جس سے بہت سی فصلوں کی پیداوارمیں اضافہ ہوا تاہم یہ خطے کے دیگرممالک کے مقابلہ میں کچھ نہ تھا۔ اس وقت پنجاب میں زیرزمین پانی کی سطح سالانہ ایک سے تین فٹ تک کم ہورہی ہے جوملک کے مستقبل کے لئے بڑاخطرہ ہے مگراس سلسلہ میں بھی کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں ملکی آبادی میں زبردست اضافہ ہوا ہے مگرگندم کی پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جبکہ کپاس کی پیداوارمسلسل گررہی ہے اورپام آئل، گندم وکپاس کی درآمد پراربوں ڈالرخرچ کرنا پڑ رہے ہیں جو ملکی خزانے کے لئے ناقابل برداشت ہے۔