نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ دیگرقرضوں کی چابی ہے اور آرمی چیف کے امریکی عہدیدار کو ٹیلیفون سے صورتحال میں مثبت تبدیلی آئی ہے، پاکستانی مارکیٹ کے کانفیڈنس میں اضافہ ہوا ہے اور آئی ایم ایف کے مثبت بیانات بھی سامنے آئے ہیں جس سے ڈالر کی قیمت میں دو دنوں میں 15 روپے کی کمی واقع ہوئی ہے اب دیرپا معاشی استحکام کے لیے ملک میں سیاسی درجہ حرارت میں کمی کی ضرورت ہے اس لئے سیاستدان اپنے سطحی مفادات کے لئے ملکی مستقبل داؤپرنہ لگائیں۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ مالی سال کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 18 ارب ڈالرہو چکا ہے جوجی ڈی پی کے تقریباً پانچ فیصد کے برابر ہے سابقہ مالی سال میں 17 ارب ڈالر کی زرعی اشیاء جبکہ چار ارب ڈالر کی گاڑیاں درآمد کی گئیں جس سے جی ڈی پی میں تو اضافہ ہوا مگر تجارتی خسارہ قابو سے باہر ہوگیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ ادائیگیوں کو مستقل بنیادوں پرمتوازن کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ حالیہ دنوں میں شرح سود میں اضافہ اوراشیائے تعیش پرپابندی نے درآمدات کونکیل ڈالی ہے جس کے نتیجے میں جولائی میں تجارتی خسارے میں 47 فیصد کی کمی آئی ہے جب کہ ملک میں امپورٹرز، گاڑیاں بنانے والے کارخانوں اور موٹرسائیکل مینوفیکچررز کی مشکلات شدید بڑھ گئی ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ اورپورٹفولیوانوسٹمنٹ میں زبردست کمی آئی ہے جوغیرملکی سرمایہ کاروں کیعدم اعتماد کی غماز ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائرجوسال کی ابتداء میں 17.3 ارب ڈالرتھے اب دس ارب ڈالرسے کم رہ گئے ہیں جوصرف ڈیڑہ ماہ کی درآمدات کے لئے کافی ہیں جبکہ ان ذخائر کی کم ازکم مقدارتین ماہ کی درآمدات کے برابرہونی چائیے۔ اگر23-2022 میں معیشت کواستحکام نہ ملا اوریہ اسی طرح ڈانوا ڈول رہی توکاروباری برادری اورعالمی برادری میں ملکی ساکھ کوزبردست نقصان پہنچے گا۔ میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ عالمی سطح پراشیاء کی قیمتوں میں کمی، ٹیکس کی صورتحال اورآئی ایم ایف کی جانب سے مثبت بیانات کی وجہ سے روپیہ مستحکم ہوا ہے تاہم معاشی استحکام کے لئے حسابات جاریہ کے خسارے کونصف کرنا پڑے گاجبکہ برآمدات کوبڑھانا ہوگا جواس وقت بجلی گیس پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں اضافہ اورعالمی کساد بازاری کے اندیشوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ سیاسی رسہ کشی کوختم کرنا اورسیکڑوں اربوں روپے کا نقصان کرنے والے سرکاری اداروں سے جان چھڑانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چائیے ورنہ پرانے قرضے ادا کرنے کے لئے نئے قرضے لینے کا سلسلہ کبھی نہیں رک سکتا ہے جو غربت میں اضافے کا باعث ہے۔
