مسلسل بحرانوں نے کاروباری برادری کوذہنی مریض بنا دیا ہے۔
صنعتکارکاروباردیگرممالک کومنتقل کرنے پرغورکررہے ہیں۔ میاں زاہد حسین
نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ زبردست اکنامک مس منیجمنٹ کی وجہ سے گزشتہ تین سال میں تین اقتصادی بحران آچکے ہیں جنہوں نے عوام کوتھکا دیا ہے۔ مسلسل بحرانوں نے عوام اور کاروباری برادری کی بڑی تعداد کوذہنی مریض بنا دیا ہے اور درجنوں صنعتکاراپنا کاروباردیگرممالک کومنتقل کرنے پرغورکررہے ہیں۔ بہت سے سرمایہ کارملک میں غیریقینی کیفیت کی وجہ سے دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں اربوں روپے کی غیر ملکی کرنسی میں سرمایہ کاری کررہے ہیں جس سے بھی روپیہ کمزورہورہا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پہلا بحران 2018۔2019 میں آیا جس میں وزیراعظم عمران خان نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں کئی ماہ کی تاخیرکی جس سے معیشت کوناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ تاہم اس کے بعد معاہدہ ہوگیا اورزرمبادلہ کے ذخائراورروپے میں کچھ استحکام آیا جس کے بعد کرونا وائرس کی وبا شروع ہوگئی جس کے دوران دیگرممالک کی طرح پاکستان میں بھی روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ اس بحران کے بعد عمران خان کی حکومت نے ووٹروں کوخوش کرنے کے لئے ایسے اقدامات شروع کئے جن پرمقامی ماہرین اورعالمی اداروں نے اعتراضات کئے مگر ارباب اختیار نے کسی کی نہ سنی اوررہے سہے خزانے کوخالی کرڈالا۔ اس حکومت کے جانے کے بعد سیاسی کشیدگی شروع ہوگئی جس نے ملک کوتقریباً دیوالیہ کرڈالا۔ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہوچکا ہے مگر رقم ملنے میں تاخیر کی وجہ سے ملکی صورتحال پراسکا کوئی مثبت اثرنہیں پڑا ہے اورعالمی درجہ بندی کرنے والی تینوں ایجنسیوں نے سیاسی عدم استحکام کے باعث پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کردی ہے اور اس وقت مہنگائی 22 فیصد کی بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے۔ جبکہ اگست میں تیل اور گیس کا نیا بحران شروع ہونے والا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ حکومت ملک میں آئل کمپنیوں کی تیل ذخیرہ کرنے کی استعداد بڑھانے کے اقدامات کرے اور نئی ریفائنری پالیسی کو بھی جلد منظور کیا جائے تاکہ اس شعبے میں 5 ارب ڈالر کی نئی انویسٹمنٹ کی راہ ہموار ہو سکے جس سے فرنس ائل کو ڈیزل اور پیٹرول میں تبدیل کیا جا سکے گا اور عوام کو سستا تیل فراہم کیا جاسکے گا۔ موجودہ حکومت نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے لئے اس وقت بھاری مقدارمیں تیل اورگیس درآمد کی جس وقت یوکرین جنگ کی وجہ سے انکی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں جس سے عوام کواس فیصلے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔