پاکستان کی عدالت نے حکومت کو بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے گرفتار جاسوس کلبھوشن جادھو کو وکیل کرنے کے لیے ایک اور موقع دینے کی ہدایت کی ہے۔
عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے معاملے پر بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کے لیے وکیل مقرر کرنے کی حکومتی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر اور ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ عدالت میں پیش ہوئے جب کہ سینئر وکیل حامد خان بطور عدالتی معاون عدالت میں موجود تھے۔
چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ہمارے گزشتہ احکامات پر عمل درآمد ہو گیا ہے؟
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بتایا کہ 6 اگست 2020 کو کلبھوشن کو اس متعلق آگاہ کیا گیا تھا لیکن حکومت کو بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوا۔
خالد جاوید نے کہا کہ کلبھوشن جادھو نظرثانی درخواست کے لیے وکیل مقرر کرنے کی سہولت سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا، پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے لیکن بھارت نظرثانی کے معاملے پر رکاوٹ بن رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کرنے کا حکم دے، دوسرے آپشن کے طور پر بھارت کے جواب کا مزید انتظار کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے آرڈیننس کے تحت کلبھوشن جادھو کو وکیل مقرر کرنے کی پیشکش کا جواب نہیں دیا، بھارت بین الاقوامی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد سے بھاگ رہا ہے۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر بھارت یا کلبھوشن جادھو سہولت سے فائدہ ہی نہیں اٹھانا چاہتے تو پھر نظرثانی پٹیشن کا اسٹیٹس کیا ہو گا؟