حالیہ دنوں میں چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کی باتیں چل رہی ہیں اپوزیشن جماعتوں بلخصوص پیپلزپارٹی نے بلوچستان کی تاریخ میں پہلے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے یا اپنا امیدوار لانے کا پییپلزپارٹی کو آئینی قانونی اور جھموری حق حاصل ہے مگر پیپلزپارٹی کی جانب سے کیے جانے والے سندھ دشمن فیصلوں اور پالیسیز پر بات کرنا انتہائی ضروری ہے
کیونکہ ایوان بالا ملک کا واحد ادارا ہے جس میں تمام صوبوں کی نمائندگی برابری کی بنیاد پر ہوتی ہے مگر پیپلزپارٹی ہمیشہ سندھ کو اپنی نمائندگی کے حق سے محرور رکھتی رہی ہے پییپلزپارٹی کو جب بھی موقعہ ملا انہوں سندھ کی کوٹا پر پنجاب اور غیر سندھی بولنے والے لوگوں کو سینیٹر منتخب کروایا
پیپلزپارٹی کو جب بھی سندھ کے لوگوں نے مینڈیٹ دیا اور سینیٹ میں اکثریت حاصل ہوئی تب انہوں نے کسی سندھی کو چیئرمین سینیٹ منتخب نہیں کروایا
حالیہ دس برسوں کے دوران پیپلزپارٹی کو تین مواقع ملے جس میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے فاروق ایچ نائیک، اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے نیئر بخاری، اور سیال کوٹ سے تعلق رکھنے والے میاں رضاربانی آرائیں کو چیئرمین سینیٹ منتخب کروایا گیا
حال ہی میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مصطفی نواز کھوکھر، فاروق ایچ نائیک ، رحمان ملک اور غیر سندھی بولنے والے سلیم مانڈوی والا ، شیری رحمان اور اسلام الدین شیخ کو سندھ سے سینیٹر منتخب کروایا گیا
بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹیز میں جتنا کوٹا پیپلزپارٹی کو دیا گیا سب کے سب غیر سندھی بولنے والوں کو میمبر اور چیئرمین بنوایا جن میں ہیومن رائٹس کمیٹی کے لیے مصطفی نواز کھوکھر، داخلہ کے لیے رحمان ملک، فنانس کمیٹی کے لیے فاروق ایچ نائیک، سی پیک کمیٹی کے لیے شیری رحمان اور آئی ٹی کے لیے روبینہ خالد کو چیئرمین منتخب کروایا گیا جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا اور سینیٹ کے اندر بھی پارلیامانی لیڈر شیری رحمان کو بنوایا گیا، جبکہ سندھ کی کوٹا پر صرف تین سینیٹر سسئی پلیجو، مولا بخش چانڈیو اور محمد علی جاموٹ کو منتخت کروایا گیا ہے۔
صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کس نے منتخب کروایا اس پر بات نہیں کرتے مگر رکارڈ گواہ ہے کہ بلوچستان سے تعلق ہونے کے باوجود صادق سنجرانی نے سندھ کے لوگوں اور سندھ کے حقوق کی بات کی ہے سینکڑوں سندھی نوجوانوں کو اسلام آباد کے وفاقی اداروں میں ملازمتیں دلائیں سندھ کے اشوز پر ہمیشہ سندھی سینیٹرز کو بات کرنے کا بھرپور موقعہ دیا اپنے دفتر آنے والے ہر سندھی کا کام ترجیحی بنیادوں پر کیا حتی کہ چیئرمین سینیٹ نے پرسنل اسٹاف کے لیے بھی سندھی نوجوانوں کا انتخاب کیا ۔
صادق سنجرانی کے سندھ دوست ہونے کا پیپلزپارٹی کے ہی سندھی سینیٹرز سسئی پلیجو اور مولا بخش چانڈیو سے ہلفیہ گواہی لی جاسکتی ہے۔
اب سندھ کے عوام خود فیصلہ کریں کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کی پالیسیز سندھ دشمن ہیں یا صادق سنجرانی کی؟
