کراچی: پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلکچولز فورم و آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کے بعد دس ماہ سے جاری غیر یقینی صورتحال بہتر ہونے کا امکان ہے، جس کے بعد ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار مستقبل کے بارے میں فیصلے کر سکیں گے۔؎
اب پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے سنگین چیلینج کا سامنا ہے نئی اکانامک ٹیم نے جس خوش اسلوبی سے آئی ایم ایف سے معاملات طے کئے ہیں امید ہے اسی طرح وہ ایف اے ٹی ایف کے خطرے سے بھی ملک کو بچا لینگے۔ میاں زاہد حسین نے بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد دیگر بین لااقوامی ادارے پاکستان پر اعتماد کریں گے۔ اس لیے حکومت کو چاہئے کہ معاشی بحالی کو اپنی ترجیحات میں سر فہرست رکھتے ہوئے یکسوئی سے ملکی ترقی کے ایجنڈے پر کام کرے اور ماضی کی حکومتوں پر تنقید کرکہ اپنا وقت ضائع نہ کرے۔
معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی مارک اپ میں اضافہ، PSDP , GDP میں کمی سے عوام اور کاروباری برادری پر منفی اثرات مرتب ہونگے اس لئے تاجروں صنعتکاروں اور عوام کو مہنگائی کے مہلک اثرات سے بچانے کے لئے اکنامک ایکٹیوٹی بڑھانے کے اقدامات کئے جائیں ۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قدر کے تعین کو مارکیٹ پر چھوڑنے کے فیصلے پر اقتصادی ماہرین تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، اور اسے ضرر رساں قرار دے رہے ہیں جس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات میں ناکام اداروں کی نجکاری کو ترجیح دینا ضروری ہے کیونکہ پی آئی اے مجموئی طور پر چار سو ارب جبکہ پاکستان سٹیل ملز مجموعی طور پر 467 ارب سے زیادہ نقصان کرچکی ہے۔
سٹیل مل اب بھی ماہانہ دو ارب روپے کا نقصان کررہی ہے،واپڈا کو زندہ رکھنے کے لئے سالانہ کئی سو ارب روپے درکار ہوتے ہیں اس لئے ایسے اداروں پر مزید سرمایہ ضائع کرنا ملکی مفاد میں بہتر نہیں ہے۔ ان اداروں سے حکومت یا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ ان میں کام کرنے والے نا اہل لوگ فائدے میں ہیں جس کی قیمت ساری قوم مل کر ادا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1958 میں آئی ایم فے پہلی بار قرض لیا گیا تو اس وقت ڈالر تین روپے کا تھا، 1988 میں جمہوریت کے سنہری دور کے آغاز سے قبل ڈالر اٹھارہ روپے کا تھا، جو اب ایک سو چوالیس روپے کا ہوگیا ہے، لیکن ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہوا ہمارہ اصل مسئلہ اقتصادی نہیں تجارتی ہے لہٰذہ ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے سیکٹر اسپیسفک ایکسپورٹ کپنیاں تشکیل دی جائیں۔ وزیر اعظم عمران خان اگر مستقبل کے حکمرانوں کے راستے میں ایسی قانونی رکاوٹ کھڑی کر سکیں جو انہیں اپنی مرضی سے جب چائیں اور جتنا چاہیں قرضہ لینے سے روک سکے تو یہ انکی بڑی کامیابی ہوگی۔